Wednesday 10 August 2016

تھانہ پائی خیل سے چارکلومیٹرکے فاصلے پرمیانوالی کالاباغ بنوں روڈپرسرِشام ڈاکہ ،واپڈاآفیسرسے اسلحہ کی نوک پرموٹرسائیکل ،نقدی اورسروس کارڈچھین کرلے گئے

پائی خیل (نامہ نگار)تھانہ پائی خیل سے چارکلومیٹرکے فاصلے پرمیانوالی کالاباغ بنوں روڈپرسرِشام
ڈاکہ ،واپڈاآفیسرسے اسلحہ کی نوک پرموٹرسائیکل ،نقدی اورسروس کارڈچھین کرلے گئے ۔تفصیلات کے مطابق تھانہ پائی خیل کی حدودمیں تھانہ سے چارکلومیٹرکے فاصلے میانوالی بنوں کالاباغ روڈپرسرِشام پائی خیل محلہ علی خان خیل کارہائشی گریڈاسٹیشن ماڑی پرتعینات سنیئرسپریٹنڈنٹ آفیسرواپڈاخان محمدڈیوٹی دینے کے بعدواپس اپنے گھرپائی خیل آرہاتھاکہ دونامعلوم ڈاکوؤں نے اسلحہ تان کرراستہ روک لیااوراسلحہ کی نوک پرموٹرسائیکل نمبرMIL-14-1935، نقدی3500روپے ،سروس کارڈاورشناختی کارڈچھین کرفرارہوگئے ۔تاہم سنیئرسپریٹنڈنٹ آفیسرواپڈاخان محمدنے دونامعلوم ڈاکوؤں کے خلاف رپورٹ درج کروادی ہے تاہم پورے علاقہ میں نوعمربگڑے لڑکوں کاڈاکہ مارنامشغلہ بن چکاہے۔علاوہ ازیں میانوالی کالاباغ بنوں زیرتعمیرروڈہونے کی وجہ سے ایسی وارداتیں روزکامعمول بن چکی ہیں۔ڈی پی اومیانوالی صادق علی ڈوگرسے نوٹس لینے اورپولیس گشت کامؤثرنظام بنانے کامطالبہ کیاہے۔
پائی خیل (نامہ نگار)معروف مذہبی راہنما حافظ کریم اللہ چشتی نے کہاکہ زندہ آزادومختارقومیں اپنے وطن سے کھل کرمحبت اوراپنی آزادی کاجشن شایان شان طریقے سے مناتی ہیں۔کیونکہ آزادی کی خوشیاں مناناان خوشیوں میں شریک ہوناان کی رونقیں دوبالاکرنایقینازندہ اورمحب وطن قوموں کاشیوہ ہے۔خالق کائنات مالکِ ارض وسماوات قرآن مجیدمیں بھی ہمیں یہی حکم دیتاہے کہ جب بھی کسی نعمت کاتم پرحصول ہوتواس پرخوب خوشی کااظہارکرو۔یعنی سجدہ تشکربجالاؤ۔ ’’اگرتم میراشکراداکروگے تومیں تمہیں اوردونگااوراگرناشکری کروگے تومیراعذاب سخت ہے‘‘۔وطن عزیزپاکستان کی آزادی اللہ تعالیٰ کی کسی بڑی نعمت اورفضل وکرم سے کم نہیں ۔کیونکہ اللہ رب العالمین نے 14اگست1947کے دن مسلمانوں کوانگریزوں کی غلامی سے نجات دلاکرانہیں ایساخطہ ارضِ پاک عطاکیاجوہرقسم کے معدنی وسائل سے مالامال ہے۔۔تواِ س لئے ہرمحبت وطن پاکستانی کایہ حق بنتاہے کہ اپنے پیارے وطن پاکستان سے محبت کرے ۔کیونکہ لاکھوں مسلمانوں نے اس ملک کے حصول کے لئے اپنی قیمتی جانوں کانذرانہ اوربے شمارقربانیاں پیش کیں۔دوسرا ہم نئی نسل کوجوپاکستان کاقیمتی اثاثہ ہیں جنہوں نے اس وطن عزیزکی باگ دوڑسنبھالنی ہے اس لئے نئی نسل کوقیامِ پاکستان کے لئے دی جانیوالی قربانیوں سے روشناس کراناان کی یادتازہ کرناہماراملی فریضہ ہے۔کیونکہ یہ بات ہرکسی پرروزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ ملک لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کاثمرہے اگرہمارے بزرگ یہ قربانیاں نہ دیتے توشایدآج بھی ہم آزادنہ ہوتے؟تحریک پاکستان میں صرف مردنہیں بلکہ خواتین کاکرداربھی ہماری تاریخ کاسنہری باب ہے۔
پائی خیل (نامہ نگار)پائی خیل اورگردنواح میں گرانفروشوں نے اُت مچارکھی ہے ۔تفصیلات کے مطابق پائی خیل اورگردنواح میں سبزیات،فروٹس، گوشت اوردیگرخوردونوش کی اشیاء کے من مانے ریٹ مقررکرکے شہریوں کوفروخت کرکے دونوں ہاتھوں سے لوٹاجارہاہے ۔کریانہ دکانوں پرکہیں بھی ریٹ لسٹ آویزاں نہیں کی جاتی زیادہ ریٹ سے اشیاء کوفروخت کرنااپناحق سمجھتے ہیں جبکہ ریٹ لسٹ آویزاں نہ کرنااپنی توہین سمجھتے ہیں ۔ایک دوسرے سے سبقت لینے کے لئے اندھیرنگری مچارکھی ہے ۔خریدزائدنرخوں پراحتجاج کرے تواسے طرح طرح کی دھمکیوں دی جاتی ہیں اورلوگوں کے سامنے خریدارکی عزت وتوقیرکی پامالی کی جاتی ہے ۔تگڑھے اورمنہ زورخریدارکوخوش کرنے کے لئے رعایتوں پراشیاء فروخت کی جاتی ہے ۔عوامی وسماجی حلقوں نے ڈی سی اومیانوالی اورارباب اختیار سے نوٹس لینے کامطالبہ کیاہے ۔

وطن کاگیت


علامہ مفتی سطان احمدقادری پائی خیل،میانوالی03017803657

وطن کاگیت
اے پیارے وطن تیری ہرچیزپیاری ہے 
دیکھوجشن آزادی کی ہرگھرمیں تیاری ہے
پرچم کاسماں آیا جھنڈیوں کی بہارآئی 
پرچم لہراتے ہیں خواہ گھرہویاگاڑی ہے
جب ماہِ اگست آئے فورٹی سیون(1947)پلٹ آئے
بدلہ خون شہیدوں کا یہ دھرتی ساری ہے
ہرفردپہ لازم ہے احترام آزادی کا
جس کی خاطرلاکھوں نے جان اپنی واری ہے
سب شکربجالاؤ اس نعمت باری پر
پاکستان ملاہم کو یہ نعمت باری ہے
ہرچیزمیسرہے جوچیزطلب میں ہو
زندگی کی ضرورت کا ہرچشمہ جاری ہے
ہم اس کی حفاظت پر دل وجان سے قربان ہوں
سلطان احمدقادری اک ادنیٰ لکھاری ہے
یہ قومی نغمہ چودہ اگست کی نسبت سے چودہ مصرعے لکھے گئے ۔

اگست اور نوجوانوں کا رویہ؟


اگست اور نوجوانوں کا رویہ؟

وہ جو در بدر خاک بسر ہوئے
وہ جو لٹ گئے بے گھر ہوئے
1947کی آزادی کے بعد ہمارے آباؤ اجداد اور مسلمانوں نے جو صعوبتیں سہیں، جو قربانیاں دیں، جن مصیبتوں کا سامنا کیااور ہندوؤں، سکھوں کے جس جبر کو اپنے سینوں پر برداشت کیا تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی۔ لاکھوں فرزندان توحید نے بے سروسامانی کی حالت میں اپنے بھرے پرے آبائی گھروں، زمینوں اور کھیتوں کو دشمنانِ اسلام کے رحم و کرم پر چھوڑ کر پاک دھرتی کا رخ کیا۔ ان مہاجروں کے آباؤ اجداد کی قبریں، بزرگان دین کے مزار، مسجدیں، خانقاہیں سب کی سب ہندوستان میں ہی رہ گئیں۔ ہجرت کے دوران لاکھوں مسلمان مرد، عورتیں اور بچے ہندوؤں اور سکھوں کے ظلم و ستم کی بلی چڑھ گئے۔ نوجوان مسلمان لڑکیوں نے کنوؤں میں کود کر اپنی جانیں گنوا دیں تاکہ ہندوؤں اور سکھوں سے اپنی عصمت کو محفوظ رکھ سکیں مگر اس کے باوجود لاتعداد لڑکیاں اور عورتیں اغوا ہو گئیں۔جنکا نام و نشان بھی نہ مل سکا ۔اُنکو آج بھی ہماری نگاہیں دیکھنے کو ترستی ہیں...
وہ کڑا وقت، وہ تلخیاں، وہ گردشیں، وہ بجلیاں
وہ کیا تھا ؟وہ تھا ہمارے رب کا امتحاں
دوستو! 14 اگست تو ہر سال ہی آتا ہے ۔ سارے پاکستان میں چراغاں ہوتا ہے۔ گلی،کوچوں، محلوں ،سرکاری و پرائیویٹ دفاتر اور عمارتوں کو بجلی کے قمقموں سے دلہن کی طر ح سجایا جاتا ہے اور ملک کے طول و عرض میں پرچم لہرائے جاتے ہیں۔ لاہور تو خیر ہر لحاظ سے تعلیم، کاروبار، سیاست اور سیاسی تحریکوں کا گڑھ ہے ۔ اس لیے ملک کے طول و عرض سے لوگ جشن آزادی منانے اور آزادی کی تقریبات میں حصہ لینے کے لیے جوق در جوق یہاں آتے ہیں۔
میں ہر سال اِس رات کو اپنی آنکھوں سے مناظر دیکھتا ہوں ۔ویگنوں، بسوں، موٹر سائیکلوں پر اور پیدل ہر سمت ہجوم ہی ہجوم نظر آ تاہے ۔کاروں، بسوں کی چھتوں او ر موٹر سائیکلوں پر بہت بڑی تعداد میں نوجوان ہوتے تھے۔ جنہوں نے موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکالے ہوئے تھے اور موٹر سائیکلوں کی گڑگڑاہٹ اور نعروں کی آوا زیں مل کر کچھ ایسا سماں پیدا کر رہی تھیں کہ اِرد گرد کوئی بھی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ قریب بیٹھے لوگ بھی بات کرنے کے لیے ایک دوسرے کے کان سے منہ لگا کر بات کرنے پر مجبور ہوتے۔ ایک ، ایک موٹر سائیکل پرچار ، چار نوجوان بھی براجمان تھے اوربعض پر تو پانچ یا چھے بھی دکھائی دیئے ۔ ٹریفک کا ہجوم توبے تحاشا تھا اور موٹر سائیکلوں کے پھٹے ہوئے سائلنسروں سے نکلنے والا کثیف دھواں بھی فضائی آلودگی میں اس قدر اضافہ کر رہا تھا کہ سانس لینا بھی دشوار تھا۔کچھ نوجوان تو جب خواتین کے پاس سے گزرتے تو مزید پر جوش انداز میں کرتب اور فن دکھاتے، عجیب و غریب اشارے کرتے اور تنگ کرتے تھے۔
میرے ہم وطنو!ہماری نوجوان نسل کو اس امر کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ خواتین ہم سب کے لیے یکساں قابل احترام ہوتی ہیں اور بعض با پردہ گھرانوں کی خواتین کو تو صرف اس طرح کے خاص موقعوں پر ہی زندگی کی روانی سے لطف اندوز ہونے کے لیے گھروں سے نکلنے کا موقع ملتا ہے۔ ان سے چھیڑ چھاڑ اور بدتمیزی کر کے انہیں یہ تاثر نہ دیں کہ انگریزوں اور ہندوؤں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد وہ پاکستان میں اپنی ہی نوجوان نسل کے ہاتھوں میں یرغمال ہیں۔
لٹ گیا وہ تیرے کوچے میں رکھا جس نے بھی قدم 
اِس طرح کی بھی راہ زنی ہوتی ہے کہیں ؟
میرے پاکستانی بھائیو!ہر سال اِس موقع پر لاہور کی تمام سڑکوں پر ہر طرف ٹریفک وارڈن اور پولیس اہلکار تعینات ہوتے ہیں ۔ مگر وہ بھی بے بس۔ موٹر سائیکلوں پر سوار نوجوان سرکاری اہلکاروں کو بھی تنگ کرنے سے باز نہیں آتے۔ کچھ ایسے ’’بہادر ‘‘ نوجوان بھی تھے کہ جو اس رش میں بھی موٹر سائیکلوں پر کرتب دکھانے سے باز نہیں آتے تھے۔ تیز موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ون ویلنگ اور ہاتھ چھوڑ کرموٹر سائیکل چلاتے ہوئے مختلف کرتب دکھاتے تھے۔
اے پاکستا نیو! ہاتھ چھوڑ کر موٹر سائیکل چلانا اور ون ویلنگ سے باز آئیں۔ اگر آپ کسی حادثہ کا شکار ہو گئے تو یہی جشن آزادی ہمارے لیے ماتم اور عذاب بھی ہے ۔ آپ کی یہ بے ہنگم ڈرائیونگ دوسرے لوگوں کو بھی غم میں مبتلا کر دے گی۔ موٹر سائیکلوں کے سائلنسر مت نکالیں یہ فضائی آلودگی کے ساتھ ساتھ شور کی آلودگی میں بھی اضافہ ہیں اور صحت و سماعت کے لیے خطرہ ہیں۔اپنی اوردوسروں کی صحت و زندگی کے لیے ایسی منفی حرکتوں سے پرہیز کریں۔
اُس قوم میں ہے شوخی اندیشۂِ خطرناک
ہماری حکومت نے 14 اگست کے موقع پر پولیس کو خاص ہدایات کی ہوتی ہیں کہ عوام الناس کے لیے جشن آزادی کی تقریبات اور خوشی و مسرت منانے کی راہ میں حائل نہ ہوا جائے ۔لیکن !ہمارے کھلنڈرے نوجوان اِس دن بھی پولیس و ٹریفک اہلکاروں کو مفت میں پریشان کرتے ہیں۔حالانکہ اِس دن ہم سب کو ایک دوسرے میں تحائف بانٹنے چاہیں ،ایک دوسرے کے گلے مل کر خوشیاں بانٹنی چاہیں۔ہمیں اِس دن مسجدوں میں جا کر نوافل، قرآن پاک کی تلاوت اور خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہم ایک آزاد وطن میں جی رہے ہیں۔
میرے ہم وطنو !یاد رکھو!پاکستان ہو یا دنیا کا کوئی بھی ملک ہو اُس کی معاشی، معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی ترقی میں اہم کردار اور انقلاب برپا کرنے میں سب سے زیادہ اختیار نوجوان نسل کے پاس ہوتا ہے۔ اگر نوجوان ایک اور متحد ہوں ان کی سوچ اور نظریات ایک جیسے ہوں ۔ وقت اور قانون کے پابند ہوں تو وہ ملک نوجوان نسل کی انگلیوں کے اشاروں پر چلتا ہے۔ ایسے نوجوان جب چاہیں اپنے ملک کو پستی سے بلندی پر لے جا کھڑا کریں اور جب چاہیں اک مختصر سے وقت میں ملک میں تباہی و بربادی مچا کے ملک کا بیڑا غرق کر دیں اور ترقی کا پہیہ جام کر کے رکھ دیں۔ تو اب ہماری جوان نسل کے کاندھوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے اس ملکِ پاکستان کے لیے کیا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔پستی یا بلندی؟فیصلہ آ پکا؟
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر 
ہر فرد ہے مِلت کے مقدر کا ستارہجس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد

بے بسی اور بے حسی کی انتہا ؟؟؟

بے بسی اور بے حسی کی انتہا ؟؟؟

میرے ہم وطنو!میرے دیس میں انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے غربت ،بھوک،افلاس،بیروزگاری،قتل و غارت اور دہشتگردی عروج پر ہے ۔ عوام نفسیاتی مریض بن کر رہ گئی۔ہر طرف افرا تفری کا سماں ہے،کسی شخص کو کسی دوسرے کی خبر نہیں،بلکہ ہر شخص اپنے آپ سے بھی ناواقف و اجنبی بن چکا ہے۔ آج کے اِس مشینی دور میں صنعتی انقلاب نے انسانیت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ سماجی ڈھانچے بدل گئے۔ انسان اپنے اعلیٰ جوہر یعنی خلوص و محبت اور مہرو وفا سے رشتہ توڑ کر مادہ پرست بن گیا۔پیسے کی ہوس اور مادی ترقی نے اس کی آنکھیں اس طرح چندھیا دی ہیں کہ انسانیت کا احساس و احترام ختم ہو کر رہ گیاہے ۔مصروفیت اِس قدر بڑھ گئی کہ ایک انسان دوسرے انسان سے بہت جلد دور ہو گیا... جس کی وجہ سے انسانی زندگی میں مایو سی و بے چینی اور بے اطمینانی سے بھر گئی اور بیکاری پھیل گئی ہے جس نے انسان سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ صرف مادی ترقی کا دیوانہ انسان خوش نہیں رہ سکتا۔ خوشی ایک ایسی کیفیت ہے جسے دولت سے خریدا نہیں جا سکتابلکہ سچی خوشی تو یہ ہے کہ انسان آپس میں سچی محبت سے پیش آئیں۔سچی خوشی کسی کو خوش کر کے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔
آج ہمارے سرکاری و پرائیویٹ ادارے اپنی عیش پرستیوں ور اپنی ا تھارٹیوں کے اضافوں میں مشغول ہیں ،ہر سو افرا تفری کا عالم ہے، نوجوانوں نے کتابوں کی جگہ کلاشنکوف تھام لی ، ہر آنکھ اندھی ہو چکی ، ہر کان بہرا ہو چکا ، ہر زبان گونگی ہو چکی ، ہر دماغ ماؤف ہو چکا ، ہر دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا ،ہر ضمیر بے ضمیر ہو چکا ، غیرت ختم ہو چکی...تو بقایا ہمارے پاس کیا بچا؟
دورِ جدید کی روشنی نے کر دکھائے دو کام
گھر کو روشن ، دل میں اندھیراکر دیا
ہمارے منتظمین نے اِس ملکِ پاکستان کو تمام تر سہولیات سے نوازنے اور اِسے اسلامی دنیا کی عظیم ریاست بنانے کی بجائے اپنی جنت بنا لیا...اور رعایا بیچا ی کو مسائل میں جکڑ دیا ۔ آ ج میں اپنے ارد گرد کیا دیکھتا ہُوں کہ میرے دیس میں بجلی،گیس کی لوڈ شیڈنگ ہے، پٹرول اور اشیائے ضرورت سستے داموں دستیاب نہیں ہیں اور بیروزگاری انتہا کو ہے ۔ہر شخص پریشان حال دکھائی دیتا ہے۔کسی کو ملازمت نہیں ملتی تو کسی کا اپنا کاروبار نہیں چل رہا۔ہر شخص مسائل میں جکڑا ہوا ہے۔ہر کوئی اپنی دو وقت کی روٹی کے چکروں میں دن رات اپنے اپنے کام میں مشغول ہو کر رہ گیا ۔لیکن! کسی کو ذرا بھی فرصت نہیں کہ کوئی اپنے آس پاس بھی کچھ دیکھ سکے کہ معاشرے میں کیا ہو رہا ہے؟کس غریب بیچارے کے ساتھ کیابیت رہی ہے ...؟کون کس کو لُوٹ کھسوٹ رہا ہے...؟کون کس کی بے بسی کو اپنا ہتھیار بنا کر مزے کے دن گزار رہا ہے...؟کون پیسے کی ہوس میں دوسروں کی گردنیں کاٹ رہا ہے...؟کسی کو کچھ معلوم نہیں۔
اور کوئی بیچارہ میری طرح (خاندان کا بوجھ )لیے ہر رات بھوکے پیٹ ہی سو جاتا ہے... (2012) میں اک شخص ہمیں اعتماد میں لے کر ہمارالاکھوں کا کاروبار تباہ کر گیا... فیملی اپنے گھر سے محروم ہو کر کرائے کے مکانوں میں خوار ہو رہی ہے ... بڑے بھا ئی کو ( جیل)ہو گئی .. .ہمارے سر پہ لاکھوں کا قرضہ ہے ... اپنے ذاتی کاروبار سے محروم ہو کر تعلیم چھوڑ کر پرائیویٹ ملازمت کر کے (لاکھوں کا قرضہ) اُتار نے کی کوشش کر رہے ہیں .. . لیکن! پھر بھی ایک سچے اور پکے مسلمان کی حیثیت سے صبر و شکر کے ساتھ دن گزاررہے ہیں... 

تنکا تنکا چُن کر ہم نے ایک آشیاں بنایا تھا!
چھوٹے چھوٹے خوابوں سے اپنا جھونپڑ سجایا تھا!
ہماری کُل کائنات؟؟؟
ایک میلی چادر،کچھ پُرانے کپڑے !
ایک ٹپکتی چھت اور اُکھڑی دیواریں ہیں!
آج جن کے پاس دولت ہے وہ بے حس ہو کر جی رہے ہیں اور اپنی عیاشیوں میں مشغول ہیں اور ہمارے حکام اپنے، اپنے کٹورے بھرنے کی دُھن میں دن رات مگن ہیں ... کوئی سُود ،بھتہ خوری، رشوت اور کرپشن کے بازار سجا کر بیٹھ گئے.. .تو کوئی زیادہ سے زیادہ پیسہ اکٹھا کرنے کی خواہش میں (چوبیس گھنٹے) مصروف ہیں... کوئی جگہ ،جگہ کاروبار پھیلانے میں مصروفِ عمل ہیں .. . تو کوئی لوگوں کو لُوٹ کھسوٹ کر راتوں رات امیر بننے کے سہانے خواب دیکھ رہے ہیں ... کوئی دنیا کی رنگینی میں کھو کر بے حسی کی نہج پر زندگی گزار رہے ہیں ...تو کوئی بیچارے فاقوں پر ہی جی کر بے بسی کے دن گزار رہے ہیں...آج میرے دیس میں ایک طرف بے بس لوگ مایوسی ،ناامیدی اور احساسِ کمتری کے سائے تلے پل رہے ہیں تو دوسری طرف بے حس لوگوں کی کھیپ پروان چڑھتی جا رہی ہے...ہاہ!ہائے!
دوستو !صرف پیسہ اکٹھا کرنے کی غرض اور لالچ میں ہم نے اپنا معاشرہ بے انتہا برائیوں سے بھر لیا۔ ہمارے معاشرے میں انسانیت کی تذلیل ہو رہی ہے ۔سرکاری و پرائیویٹ اداروں میں زندگی سے وابستہ تمام شعبوں میں بے حِسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ میرے دیس میں یہ چیزیں انسان کی پیدائش سے قبر میں دفنانے تک ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔لیکن ! آج کا غافل انسان اپنے اعمال، قبر کے حساب و کتاب اور آخرت کے انجام سے کس قدر غافل ہے ۔
میرے پاکستانی بھائیو !ہمارا دین سلامتی کا دین ہے۔جہاں سب کو مساوی حقوق میسر ہیں۔جو محبت و روادار ی کا درس دیتا ہے۔جہاں حقوق العباد کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔لیکن!افرا تفری ، انتشار ،خود غرضی،ہوس و لالچ اور دولت و اقتدار کے نشے نے ہمیں اپنے فرائض کی ادائیگی سے کوسوں دور کر ڈالاہے ۔اور آج اِنہی جذبات کی موج انسانیت کے پرخچے اُڑا رہی ہے۔لہٰذا!اِن جذبوں کو پھر سے جگانے کی اشد ضرورت ہے۔سسکتی انسانیت کو سہارا دینے کی بھر پُور کوشش کیجئے ، لاچاروں کی داد رسی کیجئے ، خدا کے بندوں کا حق ادا کرنے کی بساط بھر کوشش کیجئے،انسانی جذبوں سے بھر پُور ایک خوبصورت معاشرہ ا پنی حقیقی تعمیر نو کا منتظر ہے۔
زمانہ پھر منتظر ہے نئی شیرازہ بندی کا
بہت ہو چکی اجزائے ہستی کی پریشانی

Sunday 7 August 2016

بچو اور بچاؤ


بچو اور بچاؤ

چوہدری ذوالقرنین ہندل ۔گوجرانوالہ
بہت کٹھن وقت آن پہنچا ہے۔کوئی کسی پر بھروسا ہی نہیں کر سکتا ۔نہ جانے کون کب آپ کے ساتھ ہاتھ کر جائے۔کون کب آپ کو دھوکا دے جائے۔کب اپنا ہی وہشت پر اتر آئے اور آپ کو کسی دلدل میں دھکیل دے۔کسی دوست کسی عزیز و رشتہ دار حتی کہ اپنے سگوں پر بھی بھروسا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ایسا دور آن پہنچا ہے کہ آپ اپنے سب سے بڑے دشمن کو ہی اپنا سب سے بڑا دوست تصور کرتے ہیں مگر وہ ایک دن آپ کو ایسا تباہ کرتا ہے کہ آپ دوبارہ آباد نہیں ہوتے۔ہمیں اس موجودہ دور میں بہت سنبھل کر چلنا ہوگا خود بھی ایسے عناصر سے بچنا ہوگا اور اپنے بال بچوں گھر والوں و دوستوں کو بھی ایسے عناصر سے بچانا ہوگا۔
کبھی ایسا وقت بھی ہوا کرتا تھا کہ سب آزادانہ زندگی بسر کیا کرتے۔دکھ فکر غم اور ڈر انسان سے کوسوں دور رہتا ۔زندگی سہل تھی۔پریشانیاں کم تھیں۔لوگ کم تھے سہولتیں نہ تھیں بلکہ لفظ سہولت سے لوگ آشنا ہی نہ تھے۔مشقت کی زندگی تھی۔مگر سکون تھا۔جو جتنی زیادہ مشقت کر لیتا اتنا زیادہ اچھا کھانا کھا لیتا۔دولت نام کی کوئی چیز نہ تھی لوگ عالم نہ تھے۔اتنی سادگی تھی کہ ہم تصور ہی نہیں کر سکتے۔وقت گزرتا گیا لوگوں میں محنت و مشقت کا جذبہ پیدا ہوا۔جو جتنی زیادہ محنت کر لیتا اتنی ہی بہتر زندگی بسر کرلیتا۔آہستہ آہستہ لوگوں میں مقابلہ بازی شروع ہو گئی۔مگر زندگی بہتر بنانے کے مقابلوں میں کبھی ذاتی دشمنی کو پروان نہ چڑھنے دیا۔لوگ سادہ تھے لڑائی جگھڑا بہت کم تھا۔انسان اکٹھے ہو کر دوسری بالاؤں کا مقابلہ کرتے۔انسانوں میں اتفاق تھا۔وقت گزرا بالائیں ٹلیں تو انسان آپس میں لڑنا شروع ہوئے۔وقت کے ساتھ ساتھ لڑائیاں بڑھتی گئیں۔زمین پر انسانوں کی بڑھتی تعداد کے ساتھ ساتھ کئی جرم بھی بڑھے۔حتی کہ یہاں تک نوبت آن پہنچی کہ انسان اپنا مال و زر بھی بڑی احتیاط سے رکھنے لگا صدیاں گزریں مال وزر کو فتنا بنتے دیکھا گیا۔انسان نے اپنے مال ودولت کو محفوظ رکھنے کے لئے کئی اقدامات کئے مگر محفوظ نہ رکھ سکا۔گھر سے باہر نکلتے وقت کوئی اپنے پاس زیادہ رقم نہ رکھتا کہ چھن نہ جائے۔اپنے مال کی حفاظت کے لئے انسان پریشان رہنے لگا۔مگر گزشتہ کئی سالوں سے انسانوں کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوا۔جب سے انسانی اسمگلنگ کے واقعات سامنے آئے تب سے انسان خود کو کہیں بھی محفوظ نہیں سمجھتا۔گھر سے باہر جاتے ہر کوئی ڈرتا ہے کہ کہیں کوئی مجھے ہی نہ اٹھا لے۔پوری دنیا میں ایسے واقعات سامنے آئے انسانوں کو انسان ہی اٹھا لے جاتے ہیں۔میں جانتا ہوں ایسے لوگوں کو انسان کہنا گناہ ہے۔لیکن معذرت کے ساتھ یہ انسانی اسمگلر اور اغواء کار بھی ہم جیسے ہی ہیں کوئی اور مخلوق نہیں ہم میں سے ہی ہیں انکے بھی ہماری طرح عزیز و اقارب بھی ہیں۔پوری دنیا میں انسانی اسمگلنگ کئی طریقوں سے کی جاتی ہے۔جن میں نشہ آور چیزوں کے استعمال سے اغوا سب سے زیادہ ہے۔جہاں دنیا بھر میں انسانی قدروں کا خاتمہ ہوا انسانیت کو پامال کیا گیا وہیں پاکستان بھی کسی سے پیچھے نہ رہا۔گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں بھی انسانی اسمگلنگ کے کئی واقعات سامنے آئے۔بچوں بڑوں بوڑھوں اور عورتوں کو بھی اغواء کیا جاتا رہا۔انسانی اسمگلر لوگوں کو اغوا کر کے روپے کے عوض فروخت کر دیتے۔با اثر لوگ انسانوں کو خرید کر ان سے طرح طرح کے دھندے کرواتے ہیں۔کچھ اسمگلرز انسانوں کو اغواء کر کے انکے جسمانی اعضاء نکال کر فروخت کرتے ہیں ایسے لوگوں کے ساتھ ڈاکٹرز بھی ملوث ہیں۔کچھ اغوا کار روپے(تاوان) حاصل کر کے مغوی لوگوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔جن کے چھوٹنے پر ہمارے ادارے اپنا جعلی کریڈٹ لے جاتے ہیں۔گزشتہ کئی روز سے پنجاب بھر میں بچوں کے اغواء کے کئی واقعات سامنے آئے۔سینکڑوں بچے پنجاب سے اغوا ہوئے جن میں سے زیادہ کو بازیاب کروا لیا گیا مگر ابھی بھی بہت زیادہ غائب ہیں۔یہ سلسلہ تھما نہیں ہر گزرتے دن کے ساتھ بچوں کے اغواء میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔بہت سے سوالات ہیں جو لوگوں کے دل و دماغ میں گردش کر رہے ہیں۔اغوا کار کون ہیں کیوں اغوا کرتے ہیں؟بچے آسانی سے کیسے اغوا ہوتے ہیں ؟اغوا کے واقعات کو روکا کیوں نہیں جاتا؟اور حکومت اسکی روک تھام ک لئے کیا کر رہی ہے؟آخر کہاں ہے وہ میڈیا اور سیاسی و سماجی نمائندگان جو وزیر اعظم گورنر اور چیف جسٹس کے بیٹے کے اغواء پر تو چیختے ہیں مگر عام غریب لوگوں کی آواز کیوں نہیں بنتے؟کسی بھی معاشر میں غربت و جہالت ایسے فیکٹر ہیں جو انسان کو برائی کے کسی بھی درجے پر لے جاتے ہیں۔غربت و جہالت انسان کو انسانیت کے درجے سے گرا کر شیطان کے برابر بھی کھڑا کر سکتی ہے۔پاکسان میں غربت جہالت و عدم انصاف کی وجہ سے کئی جرم پروان چڑھے جس میں اغواء کاری چوری ڈکیتی جسم فروشی قتل و غارت بہت عام ہیں۔اغواء کار بھی روپے کے لالچ میں ایسے گناؤنے کام کو انجام دے رہے ہیں۔غربت و جہالت ان لوگوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔غربت کے ستائے ہوئے یہ لوگ بااثر اسمگلروں ک ہتھے چڑھ کر روپے کے عوض اپنے اور دوسروں کے گھر اجاڑ رہے ہیں۔ روپے کے لالچ میں اپنا انجام بھول بیٹھے ہیں کہ دنیا و آخرت میں انہیں سخت سزاؤں سے کوئی بچا نہیں سکے گا ۔چھوٹے بچے انکا آسان ہدف ہوتے ہیں۔کیونکہ پاکستان میں لوگ بچوں کو جنم دے کر بھول جاتے ہیں کہ انکا خیال بھی رکھنا ہے۔سکول داخل کروا کر بھول جاتے ہیں کہ بچہ سکول بھی جاتا ہے اور اغواء کار بچوں کو کھانے کے لالچ میں نشا آور اشیاء کھلا کر سکولوں گلی محلوں سے با آسانی اٹھا کر اپنے غلط مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔اغواء کے واقعات کو اس لئے روکا نہیں جا سکا کیوں کہ ہمارے ادارے سوئے ہوئے ہیں کوئی بھی ادارہ اپنے فرض سے واقف نہیں۔ہمارے سیکورٹی اداروں کے اہلکار حکومتی نمائندوں کی خدمت میں مصروف و معمور ہوتے ہیں اور عام شہریوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں کہ ان کے ساتھ کیا کچھ ہو رہا ہے۔یقین مانئے بے حد افسوس ہوتا ہے ایسے دہرے معیار پر حکومتی وسیاسی اور سماجی نمائندوں کی بے حسی پر جونامور شخصیات کے بچوں کے اغواء پر دن رات چیختے رہتے ہیں مگر عام شہریوں کے بچوں کے اغواء پر خاموش بیٹھے ہیں۔یہ دہرا معیار کیوں؟آخر کب اسکا خاتمہ ہوگا؟ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ روپے کے عوض راگ الاپتے ہیں یا پھر انسانی اسمگلروں سے ان کے اچھے مراسم ہیں۔ہمیں ان ماؤں کے غم کا کیا پتہ جن کے معصوم پھول مر جھا گئے جن کی آنکھوں کے آنسو اور روشنی ختم ہوگئی جو اپنے پیاروں کی شکل دیکھنے کو تڑپ رہی ہیں۔ہمیں اس باپ کے غم کا کیا علم جس کے سامنے اس کے بچوں کو اغواء کیا گیا اور وہ کچھ نہ کر سکا وہ ساری زندگی کیسے جی سکے گا۔آہ ان عورتوں کو کون پوچھے گا جن کو اغواء کر کے بھی زندہ رکھا گیا آہ یہ بے حس معاشرہ۔ہمیں کسی کے غم کا کیا اندازا کسی اپنے بلکہ جگر کے ٹکڑے کے چھن جانے کا کیا غم ہے۔کیا یہ وہی پاکستان ہے جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا جہاں لوگ اپنی آزادانہ زندگی بسر کر سکتے کبھی بھی نہیں میں اسے اسلام سے کیسے منصوب کر دوں جہاں کوئی کسی کا درد بھانٹنے والا نہیں جہاں اخوت نہیں انصاف نہیں قانون نہیں۔جہاں ہر کوئی دولت کے لالچ میں ڈوبا ہوا ہے کیسے وہ اسلامی ملک ہو سکتا ہے۔خدارا خود بھی بچو اور دوسروں کو بھی بچاؤ۔آج کسی کا بیٹا اغواء کرو گے تو کل کوئی تمہارا اغواء کرے گا۔آج تمہیں کسی کے غم کی کوئی پروا نہیں تو کل کو اللہ نہ کرے تمہارے ساتھ ایسا ہوجائے تو کسی کو تمہارے غم کی بھی کوئی پروا نہیں ہوگی۔یاد رکھو جو بیج بویا جائے گا اسی کو کاشت کرو گے۔حکمرانوں اور اداروں سے امیدیں وابستہ کرنا چھوڑ دیں یہ آپ کے زخموں پر نمک ہی چھڑک سکتے ہیں۔خود ایک اچھا معاشرہ بن جاؤ ایک دوسرے کے ہاتھ بن جاؤ اتنے مضبوط ہاتھ کے کوئی تمہاری طرف میلی آنکھ سے دیکھ نہ سکے۔دوسروں کی مدد کر کے ان کو بچائیں اور اللہ کے حضور خود بھی بچیں یعنی بخشش پائیں۔